پرانا
دوست
میرے شہر
میں رہنے والا
ایک دوست جس کا نام
امرت ہے۔یہ ایک اچھا
دوست ہےـ ہم نے اپنا بچپن کھیل کود میں گزارا صبح سویرے
اٹھ کر اسکول جاتے تھے ـدوپہر کو کھانا کھا
کر ٹوشن جاتے
اورپانچ بجے واپس آتے تھےـ کرتے کرتے پرئمیری اسکول پاس کرکے ہاۓ اسکول میں داخلا لیا ـاور وہ بھی میرے ساتھ ہی
تھا وہ بہت غریب خاندان سے تھاـ اور اس کی ماں بھی گھروں میں کام کرتی تھی ـ میں اسے دوسرے
دن اسکول کے لیے لینے گیا اور اسی کے گھر سے اسکول کے لیے نکلے
بہت خوش تھے ہم اسکول جانے کے لئے پھر اسکول پنہنچے اسکول کے گارڈ کو سلام کیا ہم
نئے دوستوں سے ملے اور نئے استادوں سے بھی ملے اور ہمیں استاد نے نئے کتابیں بھی
دیں اور استاد نے کہا کہ کل ان کی کاپیاں لے کر آنا پھر جب میں دوسرے دن گھرگیا
امرت کے اس کےساتھ اسکول جانے کے لیے تو
اس نے مجھے کہا میں آج اسکول نہیں جا رہا تو جب میں نے اسے مجبور کیا گھر سے باہرچلنے کے لیے تووہ گھر سے باہر میرے
ساتھ چلا اوراس نے اپنے بارے میں بتایا کہ اک تو میرے بابا غریب ہیں اور استاد نے
کہا کہ کاپیاں لے کر آنا جب اس نے مجھے یہ کہا تو میں نے بھی اسے کہا کہ تم فکر مت
کرومیں تمہارے ساتھ ہوں ہر حال میں توپھراس نے مجھےکہا کہ اے میرے پیارے
دوست میں تمہارے ساتھ بچپن سے پڑھ رہا ہوں تمہارے پہلے ہی
مجھہ پربہت احسانات ہیں اب میں اب میں مزید بوج نہیں اٹھا سکتا ـ پھر میں نے اسے کہا آج
تم میرے ساتھ اسکول چلوـ ہم اسکول گئےـ وہاں استاد نے سب بچوں
سے پوچھا کاپیاں کون کون لے کر آیا ہے
اپنا ہاتھ اوپر کریں ـٓ امرت اور میرے پاس کاپی نہیں تھں استاد نے ہم سے پوچھا ہم
کاپیاں کیوٖں نہیں ٓلے کر آۓ تو میں نے استاد کو جواب
دیا کہ ھم کل لے کر آۓ گیں ـ چھٹی کے بعد ہم اسکول سے
باہر نکلے تو امرت نے اپنی ساری کتابیں ایک گاڑے والے کو دے دیۓ فری میں ـ جب میں نے اس کا سبب
پوچھا تو اس نے کہا کہ تم میرے ساتھ عمر بھر تو نہیں رہو گے نہ میں کتابیں کہاں سے
لائوں گا ـ یہ بات بول کر وہ چلا گیا اپنے گھرـ شام کو وہ پھر مجھے گلی
میں ملا ـ اس نے مجھے کہا کہ میں اپنے پیروں پر کھڑا ہوں گا ساری عمر
بابا کی کمائ کھائ ہے اب میں اپنے پیروں
پر کھڑا ہونا چاہتا ہوں ـ جب میں نے اس سے
پوچھا کہ کہاں جاؤگے تو اس نے کہا میں
کراچی جاؤ گا کمانے کے لیئے ـ میں نے اسے بہت سمجھایا
پروہ نہیں سمجھا تو میں نے کہا چلو ٹھیک ہے بھلے جاؤ دوسرا گزرا وہ اپنے گھر سے
رخست ہو رہا تھا اپنے ضروری سامان لے کرمیں
اس کے ساتھ بس اسٹاپ تک گیا اسے بس
میں بٹھا کرمیں بہت اداسی کے ساتھ اپنے گھر لوٹا پھر جیسے ہی میں اپنی گلی میں پنہنچا
تو مجھے اپنا گلی بہت ویران سنسان لگی کیوں کہ میرا پیارا دوست مجھہ سے بچھڑ گیا ـ دیکھتے ہی دیکھتے میں نے
اپنی پڑھائ مکمل کی وقت تیزی سے گزرتا گیا ـ اس کے گھر والوں سے میں
نے پوچھا کہ وہ کہاں کام کر رہا ہے تو اس کے بابا نے کہا کہ وہ کمپنی میں کام کرتا ہے اور اس کی تنخواہ بھی
اچھی ہے 15 ہزاراور وہ بہت خوش ہے ـاور اس نے بھی دو مہینے
کی تنخواہ گھر میں بھیجی ہے ـ اور ہم بھی بھت خوش ہیں
یہ بات سن کر میں بھی خوش ہوگیا بس دکھ صرف اس بات تھا کہ میرا پیارا دوست مجھہ سے
دور ہوگیا ہے ـ کچھہ دن گززنے کے بعد وہ چھٹیا ں کر کے اپنے شہر آیا مجھ
سے بھی ملا پھر ہم نے مل کر بہت باتیں کی اور کھا نا بھی ساتھ بھی میں کھایا اور
بہت خوش ہوۓ ـ دوست نے مجھے کہا کہ
زندگی میں صرف پڑھائ ہی ضروری نہیں ہوتی کچھہ خاندان کی بھی زمیداریاں
ضروری ہوتی ہیں ـ زمیداریوں کو سمجھنے میں آدھی جوانی گزر جاتی ہے اور آدھی
جوانی زمیداریوں کو سمجھنے میں چلی جاتی ہےـ چلتے چلتے زمیداریاں بھی
بڑھ جاتی ہے ـ نہ ہی کہیں آ سکتے ہیں اور نہ ہی کہیں جا سکتے ہیں ـ صرف کمانے میں پوری
زندگی ختم ہو جاتی ہےـ
پرانا تو پرانا ہوتا
ہے جہاں ہم باتیں کرتے تھے آج وہ جگائیں
بھی خالی ہیں بلکل ویران لگتی ہے آج تو دل
بھی نہیں لگتا جب میں دیکھتا ہوں تو بہت اداس ہو جاتا ہوں بس دکھ صرف اس بات کا ہے
کہ میرا دوست مجھہ سے دور ہے ـجس کی مجھے ھر وقت ضرورت
ہے پر وہ مجھ سے مل نہیں سکتا ـ کیونکہ وہ مجھہ سے دور
ہے ـ بچپن سے جیسے پرائمری
اسکول سے کے بعد مجھ سے دور ہےـ
6 Comments
Very nice
ReplyDeleteThank u
DeleteVERY NICE DIL BAHER GYA
ReplyDeleteThank u
DeleteNice
ReplyDeleteThank u
Delete